مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ Eنجف اشرف
مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ Eنجف اشرف کی کہانی ایک ایسے عزم اور ولولے کی ہے جو محسن ملت7 کی سرپرستی میں حقیقت کا روپ دھار گیا۔ 2016 میں نجف اشرف کے سفر کے دوران، محسن ملت نے مرجع عالی قدر آیت اللہ سید علی سیستانی دام ظلہ سے ملاقات کی، جہاں پاکستان میں منبر و محراب کی اصلاح اور وہاں کے واعظین و مبلغین کی تربیت کی ضرورت پر بات ہوئی۔ مرجع عالی قدر نے محسن ملت کی رہنمائی میں پاکستان کے لیے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی، جو خاص طور پر منبر حسینی اور محراب مسجد کے لیے اہل واعظین اور خطباء تیار کرے۔ اس مدرسے کا مقصد صرف تعلیم دینا نہیں بلکہ وہ افراد تیار کرنا تھا جو دینیات، تاریخ، فقہ، اور خطابت کے فن سے بخوبی آگاہ ہوں اور ان تمام علوم کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے دین کا پیغام عوام تک پہنچا سکیں۔
پاکستان کے معاشرتی حالات اور دین کے پیغام کو پیش کرنے کے طریقوں کی درستگی کے لیے یہ ادارہ انتہائی ضروری تھا۔ عراق میں تو ایسے ادارے موجود تھے، لیکن ان کی تعلیمات پاکستان کے مخصوص ماحول کے لیے ناکافی تھیں۔ چنانچہ محسن ملت کی رہنمائی میں اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی، جس میں عقائد، سیرت، تاریخ، مسائل خلافیہ اور مقتل کے علاوہ فن خطابت کی تعلیم دی جانے لگی۔
اس مدرسہ کا باقاعدہ افتتاح جمادی اول 1437ھ میں ہوا، جس میں الحاج میثم کاظم دام توفیقاتہ نے محسن ملت کی مدد کی۔ مدرسہ کی مقبولیت اور فعالیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2023 میں 30 نشستوں کے لیے 225 امیدواروں نے داخلہ ٹیسٹ میں حصہ لیا۔ اس وقت جناب شیخ سردار حسین صاحب مسؤلیت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تعلیمی نظام اور نصاب
اس وقت 44 طلباء اس ادارے میں زیر تعلیم ہیں۔ مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ Eنجف اشرف میں تعلیمی نظام کو بہت سوچ سمجھ کر ترتیب دیا گیا ہے تاکہ یہ ادارہ نہ صرف اپنے طلبہ کو بنیادی دینی علوم سے آراستہ کرے، بلکہ انہیں وہ مہارتیں بھی فراہم کرے جو ان کے معاشرتی کردار کو مستحکم کر سکیں۔ اس ادارے میں چار سالہ کورس فراہم کیا جاتا ہے، جو خاص طور پر منبر حسینی اور محراب مسجد کے لیے واعظین اور خطباء کی تربیت پر مرکوز ہے۔
نصاب میں بنیادی طور پر عقائد، سیرت، تاریخ، مسائل خلافیہ، مقتل اور فن خطابت شامل ہیں۔ یہ نصاب پاکستانی معاشرتی اور دینی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے، تاکہ طلبہ نہ صرف دینی اصولوں سے واقف ہوں بلکہ ان کے پاس وہ ضروری صلاحیت اور جرات ہو جس کے ذریعے وہ عوام تک دین کا پیغام پہنچا سکیں۔
فارغ التحصیل طلباء اور ان کی خدمات
مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ نجف اشرف سے فارغ التحصیل طلبہ نے اپنے تعلیمی سفر کے بعد نہ صرف اپنے ذاتی میدان میں کامیابیاں حاصل کیں، بلکہ انہوں نے دین کی خدمت میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ فارغ التحصیل طلبہ پاکستان میں دین کے پیغام کو موثر انداز میں پہنچانے میں پیش پیش ہیں، اور ان کی خدمات مختلف شعبوں میں نمایاں ہیں۔
اب تک اس مدرسے سے52 طلباء کرام فارغ التحصیل ہو چکے ہیں، جن میں سے 16 افراد پاکستان واپس جا کر باقاعدہ منبر پر اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ بعض فارغ التحصیل افراد حوزہ علمیہ میں مزید تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور محرم و صفر جیسے اہم دینی مواقع پر منبر و محراب کو خدمات فراہم کرتے ہیں۔ یہ فارغ التحصیل افراد اپنی دینی خدمات کے ذریعے نہ صرف دین کی سچی تصویر پیش کر رہے ہیں بلکہ عوامی سطح پر سماجی اثرات بھی مرتب کر رہے ہیں۔ ان کا کردار اس بات کا غماز ہے کہ محسن ملت 7 کی سرپرستی میں تعلیم اور تربیت کا جو عمل جاری ہے، اس کے اثرات نہ صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں بلکہ پوری معاشرتی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ان فارغ التحصیل طلبہ کی خدمات محسن ملت کی تعلیمات کی ایک جیتی جاگتی مثال ہیں، جو نہ صرف علم کی رہنمائی فراہم کر رہے ہیں بلکہ پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے چہرے کو دنیا کے سامنے خوشنما اور خوبصورت انداز میں پیش کر رہے ہیں۔
مدرسہ کی خدمات اور معاشرتی اثرات
محسن ملت 7 کی رہنمائی میں مدرسہ نے اپنے طلبہ کو نہ صرف دینی علوم میں ماہر بنایا بلکہ ان کو معاشرتی ذمہ داریوں کا بھی شعور دیا، تاکہ وہ نہ صرف علم کے حامل ہوں بلکہ ایک بہتر انسان بن کر اپنے معاشرے کی خدمت بھی کریں۔
محرم و صفر میں تبلیغی سرگرمیاں اس ادارے کی اہم ترین خدمات میں شامل ہیں۔ مدرسہ کے فارغ التحصیل طلباء نے مختلف مدارس اور دینی سینٹرز میں خدمات انجام دیتے ہوئے، نہ صرف دین کی تعلیم کو فروغ دیا بلکہ عوامی محافل اور سیمینار کے ذریعے لوگوں میں دینی آگاہی بھی پیدا کی۔
محسن ملت کی سرپرستی اور اثرات
محسن ملت، علامہ شیخ محسن علی نجفی 7 کی سرپرستی مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ نجف اشرف کی کامیابی کا اہم ترین عنصر تھی۔ آپ کی رہنمائی نے اس ادارے کو ایک ایسی درخشاں مثال بنایا جس میں صرف دینی تعلیم نہیں بلکہ ایک بہتر فرد کی تشکیل پر بھی زور دیا گیا۔
محسن ملت 7 کا کہنا تھا کہ منبر حسینی پر ایمان اور علم کے ساتھ جا کر دین کی سچی تصویر پیش کی جائے، اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ آپ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ منبر اور محراب پر ہونے والے غلط پراپیگنڈوں کو روکنے کے لیے اہل منبر کو اپنی تعلیم اور خطابت کے فن سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔