حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره
جائے ولادت
سرزمین بلتستان کے مرکزی شہرِ سکردو سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر دشوار گزار اور دور افتادہ مگر جمال فطرت سے مالا مال گاؤں منٹھوکھا واقع ہے ۔ ابتداء میں یہ گاؤں کم و بیش 60 گھرانوں پر مشتمل تھا جہاں کے لوگوں کا طرز زندگی نہایت سادہ تھا اور کھیتی باڑی ان کا ذریعہ معاش تھی۔ 1940ء میں انہی گھرانوں میں سے ایک خوش نصیب گھرانہ وہ تھا جس میں دور حاضر کے ایک نابغہ روزگار انسان یعنی محسن ملت آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی 7 متولد ہوئے۔
والدین
آپ کے والدِ گرامی جناب مولانا حسین جان تھے۔ جبکہ دادا کا اسم گرامی عبدالحلیم اور پردادا کا نام حسین حلیم تھا۔ جناب مولانا حسین جان مرحوم کو اللہ تعالی نے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔ محسن ملت اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور گھر بھر کے لاڈلے تھے۔
آپ کے والد گرامی منٹھوکھا گاؤں کے ایک جید عالم باعمل تھے، دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی تجوید میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔ علاقہ کے نامور عالم دین ہونے کے ناطے فقہی مسائل میں رہنمائی اور شرعی معاملات میں قضاوت کی غرض سے دور و نزدیک کے لوگ آپ کی جانب رجوع کرتے تھے۔ مولانا حسین جان8 اپنی نرم خوئی، عبادت گزاری اور پرہیزگاری کے ساتھ ساتھ ایک ماہر سخنور اور ادیب کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ اس دور میں باقاعدہ دینی مدارس کا رواج نہ تھا بلکہ علماء اپنے گھروں ہی میں تشنگان علم کو سیراب کیا کرتے تھے۔
چنانچہ محسن ملت 7 کے والد گرامی مولانا حسین جان بھی اپنے گھر پر علوم آل محمد D کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ علاوہ بر آں آسانی کے ساتھ تعلیمات دین کی ترویج کی خاطر بلتی زبان میں انہوں نے ایک سو اشعار پر مشتمل اصولِ عقائد کو منظوم کرنے کے علاوہ شکیات نماز سے مربوط 100 اشعار پر مشتمل ایک ایسی نظم تحریر کی جسے یاد کرنے والے ہر شخص کی نسبت یہ باور کیا جاتا تھا کہ اسے شکیات نماز کے مسائل کا کما حقہ علم ہے کیونکہ اُسے مولانا حسین جان کی نظم یاد ہے۔
اصول دین کے بارے میں مولانا حسین جان مرحوم کے چند نمائندہ اور معروف بلتی اشعار با ترجمہ درج ذیل ہے:
اصول دین غا یود ایمانی ڈم پو
رگوسید شیسپہ مکلف لہ دی ژھانکو
اصول دین یعنی دین کی جڑیں پانچ ہیں۔ہر مکلف کے لئے ان اصولوں سے آشنا ئی ضروری ہے۔
گوپیو توحید نیسی کھا اِن عدالت
خسو میکہ اِن نبوت بجی امامت
پہلا توحید ہے اور دوسرا عدل، تیسرا نبوت ہے اور چوتھا امامت۔
تہ غیکھہ ان معاد روز جزا پو
ہلژانید من ما نور و نسپی سزا پو
پانچواں معاد یعنی روز جزا ہے، اس دن لوگ اپنے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا کے لئے اٹھائے جائیں گے۔
دیبیکھہ سنا بیوشیک توحیدی معنیو
خدا چکفر نہ ژوخمید ان زدے مید پو
اب آپ توحید کا مطلب سن لیں، اللہ یکتا ہے جس کا کوئی مثل نہیں ہے۔
دلیل تروک ہرژید خدا چک یودپی چھیبجینگ
دیبنگ نا کھڈ بے ہرژید گوید زیرے تھقرینگ
عقیدہ توحید کے چھ دلائل بیان کئے جاتے ہیں، طوالت سے بچنے کے لئے میں انہیں بطور اختصار بیان کرتا ہوں۔
گو پیو تھیکھ بیوس خدا نس یود نرے ینگ
می جقپی ان پا چِک چیگی چیک پو ہش گنگ
پہلی دلیل یہ کہ اگر خدا دو ہوتے تو،وہ ایک دوسرے کو لمحہ بھر کے لئے بھی باقی نہ رکھتے۔
مہ جقپا فربیاسید ناچک پوی ایو
بیا سے کامل کھوانی کھوری خدا ئیو
اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کو ختم کر دے، تو وہی حقیقی خدا ہوگا۔
مہ ین نا نیسکولا اے چک پو فر بیو
دے عاجز نسکا مین بيور مو خدا گو
اگر یہ دونوں ایک دوسرے کو ختم نہ کر سکے تو وہ دونوں عاجز قرار پائیں گے جبکہ عاجزی خدا ئی کی منافی ہے۔
عشقِ اہل بیت سے لبریز قلب و روح کے حامل اخوند حسین جان ذاکر اہل بیت بھی تھے۔ مرحوم مجلس عزا پڑھتے اور مصائب اہل بیت D پر خوب گریہ و بکا کرتے تھے۔
مرحوم مولانا حسین جان 8 نعتیہ و رثائی اشعار بھی کہا کرتے تھے۔ مولانا حسین جان اور ان کی اہلیہ محترمہ نے ضلع شگر میں واقع گاؤں ”چھوترون“ (گرم چشمہ) کے ایک مدرسے سے دینی تعلیم حاصل کی تھی۔مولانا حسین جان کی اہلیہ محترمہ کو فارسی زبان پر عبور حاصل تھا۔ وہ دینی وشرعی مسائل سے بھی خاص آگاهی رکھتی تھیں۔ ان کے پاس فارسی زبان میں ایک رسالہ عملیہ(توضیح المسائل) تھا۔ وہ(رحمۃ اللہ علیہا) اس کتاب سے اپنے گاؤں اور اس کے گردونواح میں بسنے والی خواتین کو فقہی احکام سے آگاہ کیا کرتی تھیں۔
بچپن کی یادیں
محسن ملت 7 بیان کرتے تھے کہ دس سال کی عمر میں ایک عالم دین بطور مہمان قیام پذیر تھے ایک دن میں بھی والد محترم کے پاس بیٹھا ہوا تھا تب مہمان نے مجھ سے اپنا نام پوچھا تومیں نے بتایا کہ میرا نام محسن علی ہے یہ سن کر انہوں نے کہا کہ ”محسن“ کون سا صیغہ ہے اس کا مصدر،ماضی،مضارع وغیرہ وغیرہ کیا ہیں۔۔ تو میں نے بغیر کسی تردد کے سب چیزیں بالکل درست سنائیں اور ان سے داد وصول کی۔اس واقعہ کے بارے میں آپ کہتے تھے کہ عموما ہمارے ہاں شخصیت سازی کرنے کی بجائے اس کی ڈانٹ ڈپٹ کرکے بچے کی شخصیت کو مجروح کیا جاتا ہے۔ لیکن اس مہمان عالم دین نے جب میری حوصلہ افزائی کی تو اس سے مجھے ایک ولولہ تازہ ملا چنانچہ اس کے بعد میں اپنی شخصیت کو مزید سنوارنے میں مصروف ہوگیا۔
ابتدائی تعلیم
آپ کے والد محترم مستند عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ علم تجوید قرآن کے بھی ماہر تھے اور گاؤں کے دیگر افراد قرآن اور دیگر دینی احکام سیکھنے کے لیے انہی کے پاس حاضر ہوتے تھے۔جبکہ آپ نے بھی قرآن مجید، تجوید، بنیادی عقائد، اور احکام کی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے ہی حاصل کی۔ نو سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید مکمل کیا تو اپنے والد صاحب سے اس وقت کے مرجع حضرت آیت اللہ ابو الحسن اصفہانی رحمہ اللہ کا فارسی زبان میں رسالہ عملیہ مسائل المنتخبہ اور میزان المنشعب پڑھنا شروع کئیں ،یہ دونوں کتابیں آپ نے باقاعدہ والد صاحب سے ہی پڑھیں۔لیکن آپ نے ابھی زندگی کی چودہ بہاریں ہی مکمل کیں تھیں کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا ، اور یوں شفقت پدری سے محرومی کے ساتھ ساتھ آپ کی تعلیم کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رک گیا۔ایسے میں آپ کے گاؤں سے متصل ایک گاؤں “اخوند پہ ” کے ایک عالم دین مولانا غلام حیدر8 کے پاس دوبارہ تعلیم شروع کی اور صرف میر وغیرہ بھی وہیں پڑھی۔
سایۂ پدری سے محرومی
آپ نے ابھی زندگی کی چودہ بہاریں ہی مکمل کی تھیں کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ یوں شفقت پدری سے محرومی کے ساتھ ساتھ آپ کی تعلیم کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رک گیا۔ایسے میں آپ نے اپنے گاؤں سے متصل ایک گاؤں “اخوند پا ” کے ایک عالم دین مولانا غلام حیدرؒ کے پاس دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور صرف میر وغیرہ بھی وہیں پڑھیں۔
قوتِ فیصلہ
محسن ملتؒ انتہائی مضبوط اعصاب اور فیصلہ کن شخصیت کے مالک تھے چنانچہ اپنی زندگی کے تمام اہم ترین فیصلے آپ نے خود کیے۔ اسی خصوصیت نے آپ کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کے چار اہم ترین فیصلے جو آپ کی کامیاب زندگی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں درج ذیل ہیں:
دینی تعلیم کا حصول،
بلتستان سے کراچی کا سفر،
لاہور سے نجف اشرف روانگی،
نجف اشرف سے وطن عزیز پاکستان واپسی۔
دینی تعلیم کا حصول
بہن بھائیوں میں آپ سب سے کم عمر تھے۔ والد کی وفات کے وقت آپ کے بھائی زمینوں میں کام کرتے تھے۔ بھائیوں نے اصرار کیا کہ آپ بھی ان کے ہمراہ آبائی پہاڑی چراگاہ میں اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی کریں اور مویشیوں کی گلہ بانی کا کام انجام دیں ۔آپ کی زندگی کے شب و روز پہاڑوں پر مویشیوں کے ساتھ گزرنے لگے مگر آپ کے دل و دماغ میں حصول علم کا شوق چھایا ہوا تھا۔ ایک روز آپ نے شام کے وقت فیصلہ کر لیا کہ میں نے اب پڑھنا ہے لہذا آپ نے اسی وقت پہاڑوں سےاپنا رخت سفر باندھا اور سنگلاخ راستوں پر ننگے پاؤں بھاگ کر منٹھوکھا گھر میں والدہ کے پاس پہنچے۔ رات پوری طرح چھا چکی تھی اس رات کے پہر اچانک آپ کو دیکھ کر والدہ پریشان ہوئیں۔ آپ نے اپنے پختہ ارادے کا اظہار اپنی والدہ کے سامنے کیا ۔ آپ کی والدہ گرامی خود بھی عالمہ تھیں لہذا انہوں نے فوراً آپ کے ارادے کو بھانپ لیااور آپ کے فیصلے پرحامی بھری ۔آپ نے حصول علم کی خاطر آبائی گاؤں سے ہجرت کا تاریخ ساز فیصلہ کیا۔ کم سنی کے عالم میں حصول علم دین کے لئے آپ کا یہ پہلا ذاتی حکیمانہ فیصلہ آپ کی تمام زندگی کے سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
مقدمات کی تعلیم
اُس وقت دریا کی دوسری جانب ایک قریبی گاؤں ”ژھیندو “ میں ایک عالم ربانی مولانا سید احمد موسوی 8 مقیم تھے۔ وہ نجف اشرف سے تعلیم حاصل کرکے واپس تشریف لائے تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں مدرسہ کھولا تھا جہاں روزانہ کی بنیاد پر طلاب آتے اور سبق پڑھ کر واپس چلے جاتے تھے۔مولانا سید احمد موسوی 8 نیک سیرت، خوش اخلاق اور با کردار انسان تھے۔ محسن ملتؒ اپنا گاؤں چھوڑ کر اس استاد کے گاؤں میں منتقل ہوگئے۔ واضح رہے کہ اس نقل مکانی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ راستے میں دریا پڑتا تھا جسے روزانہ عبور کرنا ممکن نہیں تھا۔ پس اس نقل مکانی کے نتیجے میں آپ نے ہداية النحو سے لے کر شرحِ لمعہ تک کی تمام تر ابتدائی کتابیں مکمل کرلیں۔
بلتستان سے کراچی ہجرت
حصول علم دین کے لیے بلتستان چھوڑنے کا آپ کا دوسرا اہم فیصلہ بھی آپ کا ہی ذاتی فیصلہ تھا۔ آپ کے ایک چچا جان محمد خان نے آپ کے لگن، شوق اور ولولے کو دیکھا تو آپ کو کراچی آنے کی پیشکش کی تھی اور کہا تھا کہ اگر آپ بلتستان کو خیرباد کہنا چاہتے ہیں تو کراچی تشریف لائیں تاکہ ہم آپ کی ممکنہ معاونت کر سکیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اللہ ان کے لیے راہیں نکال لیتا ہے۔ پس محسن ملتؒ نے ان کی دعوت قبول کی۔یوں 1963ء کی ابتدا میں آپ اپنا رختِ سفر باندھ کر راہیٔ کراچی ہوئے۔
جامعہ علویہ مشارع العلوم حیدر آباد سندھ
آپ نے کراچی کے تعلیمی اداروں کا مشاہدہ کیا تو کسی ادارے پر نظر انتخاب نہ ٹھہری۔ یوں آخرکار آپ نے حیدر آباد سندھ کے جامعہ علویہ مشارع العلوم میں داخلہ لیا جس کے پرنسپل مولانا ثمر حسن زیدی مرحوم تھے۔ وہ ایک عالمِ باعمل اور امام جمعہ و جماعت تھے۔ ان سے محسن ملت نے شرائع الاسلام وغیرہ پڑھیں۔ ان کے علاوہ مولانا منظور حسین صاحب سے بھی کسب فیض کیا اور ان سے دیوان متنبی اور چند دیگر کتب پڑھیں۔ یہ دونوں شخصیات آپ کے پسندیدہ استاد قرار پائے۔
جامعہ علویہ مشارع العلوم میں آپ ایک سال تک رہے۔ سال کے آخر میں امتحان ہوا جس کا پیپر کراچی سے بن کر آیا تھا۔ ایک ایرانی عالم دین آیت اللہ شریعت نے اسے مرتب کیا تھا۔ سوالات عربی میں لکھے گئے تھے۔ محسن ملت ؒنے تمام تر جوابات عربی میں تحریر کیے۔ انہیں آیت اللہ شریعت نے خود چیک کیا۔ جوان محسن علی نے سب سے زیادہ یعنی 93فیصد نمبر حاصل کرکے نمایاں کامیابی حاصل کی، نیز آپ نے اس دوران اردو زبان پر بھی کافی حد تک عبور حاصل کیا۔
دار العلوم جعفریہ خوشاب میں
مدرسہ مشارع العلوم سندھ میں شرح لمعہ کی تعلیم کا اہتمام نہ تھا، لہٰذا مزید تعلیم کے حصول کی خاطر ایک سال بعد ہی یہ مدرسہ چھوڑنا پڑا۔ ان دنوں خوشاب میں مولانا محمد حسینؒ(سدھو پورہ، فیصل آباد) دارالعلوم جعفریہ خوشاب کے پرنسپل تھے۔ محسن ملتؒ 1964ء کے اواخر میں دارالعلوم خوشاب کے طالب علم بن گئے۔
یہاں آپ نے مولانا محمد حسینؒ قبلہ سے معالم الاصول، مختصر المعانی، شرح لمعہ اور دیگر علوم کی کچھ کتابیں پڑھیں۔ مولانا محمد حسینؒ کی علمی قابلیت سے آپ حد درجہ متاثر تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ وہ اگرچہ تیزی سے پڑھاتے تھے،لیکن ان کے دروس میں بہت برکت تھی چنانچہ آپ نے معالم الاصول جیسی مشکل کتاب محض چار ماہ میں مکمل کر لی۔ خوشاب میں محسن ملت کے زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ روٹی تقسیم ہوئی تو معمول کے مطابق آپ کے حصے میں جلی ہوئی روٹی آئی۔ تب آپ نے اس روٹی پر ہاتھ رکھ کر معالم الاصول کی کاپی کے پہلے خالی صفحے پر وہی ہاتھ رکھا تو اس پر ہاتھ کا نشان چھپ گیا۔محسن ملتؒ فرماتے تھے کہ خوشاب میں چونکہ خورد و نوش کے وسائل کی بہت کمی تھی لہذا زیادہ تر بھوکا رہنا پڑتا تھا۔ تاہم تعلیمی حوالے سے یہ دورانیہ بہت با برکت ثابت ہوا اور آپ علم کے دستر خوان سے خوب سیر ہوئے۔
خوشاب کے مدرسے میں قیام کے دوران ایک خوش آئند کام یہ ہوا کہ وہاں آپ کو ایک کلاس کی تدریس کے فرائض سونپ دیے گئے۔ آپ نے پوری دل جمعی کے ساتھ پڑھایا۔ اس کے نتیجے میں آپ کو ماہانہ 10 روپے کا مشاہرہ ملنا شروع ہوا جو معاشی تنگدستی کے اس دور میں ایک نعمت مترقبہ سے کم نہ تھا ۔اس دوران وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مناظرے کی بھی مشقیں کیا کرتے تھے جن کے قصے آپ مختلف نشستوں میں بیان فرمایا کرتے تھے۔
حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور میں
خوشاب کے مدرسے میں شرح لمعہ مکمل کرنے کے بعد جامعۃ المنتظر کی علمی فضا کی گونج آپ کے کانوں سے ٹکرائی اور معلوم ہوا کہ وہاں تعلیم کے بہتر مواقع موجود ہیں۔ بنا بریں خوشاب کے اساتذہ کی دعائیں لیتے ہوئے آپ جامعۃ المنتظر پہنچ گئے۔ وہاں آپ نے اسوقت کے پرنسپل مولانا حسین بخش جاڑا 8 اور ان کے معاون علامہ سید صفدر حسین نجفی 8 کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ اُن دنوں علامہ اختر عباس نجفی8 ایران گئے ہوئے تھے ۔ آپ نے شرح لمعہ کا بقیہ حصہ علامہ صفدر حسین نجفی8 سے پڑھا۔ علم فقہ میں شیخ اعظم انصاری8 کی کتاب ”مکاسب“ آپ نے مولانا حسین بخش جاڑا8 سے پڑھی۔ مکاسب کی کلاس میں آپ کے کُل چار ہم جماعت تھے جن میں ایک قابل ذکر شخصیت مرجع تشیع حضرت آیۃ اللہ حافظ بشیر حسین نجفی دام ظلہ تھے۔
مولانا حسین بخش جاڑا8 سے آپ نے علم فلکیات کو بھی باقاعدہ درس کے طور پر پڑھا اور سمجھا۔اس بارے میں آپ بیان کرتے تھے کہ علم فلکیات پڑھنے کا بہت زیادہ فائدہ ہوا نیز جدید فلکیات کو سمجھنے میں قدیم فلکیات کی کتب کے مطالعات سے مدد ملی۔ اس طرح قدیم اور جدید فلکیات میں پائے جانے والے مشہور تضادات کو بھی حل کرنے کا موقع فراہم ہوا۔۱۹۶۵ کی جنگ کے دوران وہ لاہور میں ہی تھے۔
جامعۃ المنتظر کے تعلیمی نصاب کا ایک اہم مرحلہ یہ تھا کہ سطوح عالیہ کے سالانہ امتحانات میں عربی میں ایک مقالہ لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ عربی زبان و ادبیات پر گرفت مضبوط ہونے کے باعث آپ نے اپنا مقالہ آسانی سے صفحہ قرطاس پر رقم کیا ۔ اسے دیکھ کر طلاب کے ساتھ خود اساتید بھی حیران و ششدر رہ گئے۔ یوں اس امتحان میں بھی آپ کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔
نجف اشرف روانگی
مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی 7 کی زندگی میں ترک وطن کا فیصلہ تیسرا بڑا اہم فیصلہ تھا اور یہ فیصلہ بھی آپ نے ازخود کیا۔اس فیصلے کی روداد یہ ہے کہ جب آپ بلتستان سے کراچی حصول تعلیم کے لیے تشریف لائے تھے تو اس وقت کراچی میں رہائش پذیر آپ کے چچا جان نے آپ سے کہا کہ پاکستان چھوڑیں اور تعلیم کے لیے عراق کی طرف جلدی روانہ ہوں۔ اس وقت آپ نے فرمایا :
”میں نے تبلیغ دین کی خاطر واپس پاکستان آنا ہے جہاں میرا واسطہ اردو بولنے والوں کے ساتھ ہوگا۔ اس چیز کے پیش نظر میرے لیے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنا اور اردو زبان و ادب پر دسترس حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ لہذا فی الحال میں عراق نہیں جاسکتا۔“
پھر وقت نے یہ ثابت کیا کہ آپ کا یہ تقدیر ساز فیصلہ گویا آپ کے با ہدف علمی سفر کا سنگ میل تھا۔ پاکستان میں حصول علم کے اس مرحلے میں آپ کی مالی اعانت آپ کے چچا ہی کرتے تھے۔ لہذا نجف اشرف جاتے ہوئے بھی آپ ان سے مل کر گئے۔ انہوں نے اخراجات اور کرائے کے لیے جو رقم دی وہ کرایہ سے بھی کم تھی، جبکہ آپ کی شریکِ حیات بھی شریک سفر تھیں۔ انہوں نے بھی آپ کے شانہ بشانہ راستے کی تمام صعوبتوں اور تکالیف کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آخر کار آپ امیر المومنینG کے شہر نجف اشرف پہنچ گئے۔
نجف اشرف میں قیام
نجف اشرف میں سب سے پہلے حوزہ علمیہ میں داخلے کا مسئلہ پیش آیا۔ ان دنوں وہاں لاہور سے تعلق رکھنے والے مولانا صادق علی مرحوم آیت اللہ حکیم 7 کے دفتر میں کام کرتے تھے۔ محسن ملت نے انہیں بتایا کہ وہ پاکستان سے آئے ہیں۔
اگرچہ وہاں امتحان لے کر ماہانہ وظیفہ دیا جاتا تھا تاہم چونکہ محسن ملت ؒمکاسب پڑھتے تھے اس لیے ان کا امتحان لیے بغیر ہی دو دینار (تقریباً) چالیس روپے وظیفہ مقر کیا گیا۔
اس وقت اتنی قلیل رقم میں بھلا آپ کا گزارا کہاں ممکن تھا؟ اس قلیل رقم میں سے ایک دینار تو مکان کے کرائے میں چلا جاتا تھا جبکہ باقی ایک دینار پورے مہینے کی دیگر ضروریات کے لیے بچ جاتا تھا۔ پھر کچھ دنوں بعد آیت اللہ شاھرودیؒ کی طرف سے روزانہ ایک درہم ملنے لگا جس سے ایک روٹی خرید لی جاتی اور اسی پر خدا کا شکر ادا کیا جاتا تھا۔
امتحان کا مرحلہ
جس سال آپ نجف تشریف لے گئے اس وقت حوزۂ علمیہ نجف کی زعامت اور مرجعیتِ عظمیٰ کے منصب پر حضرت آیۃ اللہ محسن الحکیمؒ فائز تھے۔ البتہ آیۃ اللہ خوئیؒ کا درس خارج اس زمانے میں بھی مشہور تھا اور آپ کو حوزہ علمیہ میں نہایت اہم اور نمایاں مقام تھا۔ اسی سال انہوں نے سطوح عالیہ(رسائل ،مکاسب) کے طلباء سے امتحان لے کر شہریہ/ تعلیمی وظیفہ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ محسن ملتؒ نے بھی امتحان میں شرکت کی۔امتحان کے لیے جب آپ نے تسجیل(رجسٹریشن)کرائی تو دیگر پاکستانی طلاب نے آپ کو مشورہ دیا کہ ابھی حوزہ میں آئے ہوئے آپ کو کچھ ہی عرصہ ہوا ہے لہذا عربی زبان میں ہونے والے اس امتحان میں شریک نہ ہونا ہی آپ کے لیے بہتر ہے کیونکہ یہ امتحان آپ پاس نہیں کر سکیں گے ۔ آپ نے ان باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امتحان میں شرکت کی۔ یہ امتحان بنیادی طور پر شفاہی/زبانی (viva) ہوا کرتا تھا۔اس امتحان میں بطور ممتحن اس وقت کے قابل ترین اور متخصص علماء کی تین رکنی کمیٹی مقرر تھی۔ ان میں شیخ صدرا، شیخ جواہری اور مدرس افغانی رحمہم اللہ شامل تھے جنہوں نے آپ کو ایک عبارت دی اور کہا کہ اس کا عربی میں خلاصہ تحریر کریں۔ آپ نے تھوڑی ہی دیر میں عربی میں خلاصہ لکھ کر دے دیا۔ ان بزرگان نے آپ کی عربی زبان پر گرفت دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور دادِ تحسین سے پذیرائی کی۔ وہ آپ کا تیار کردہ خلاصہ ایک دوسرے کو دکھا کر فرما رہے تھے:
”آقا! اس کا مطالعہ کریں۔ یہ پڑھنے کے قابل ہے۔“
سلسلہ دروس
نجف اشرف میں درج ذیل اساتذہ سے آپ نے کسب فیض کیا۔
آیۃ اللہ سید ابوالقاسم الخوئیؒ جن کے ہاں آپ نے فقہ کا درسِ خارج پڑھا۔
آیۃ اللہ شہید محمد باقر الصدرؒ جن کے ہاں آپ نے علمِ اصول الفقہ کا درس خارج پڑھا۔
شیخ صدراؒ اور شیخ کاظم ترکیؒ جن کے ہاں آپ نے رسائل و مکاسب اور کفایۃ الاصول کا علم حاصل کیا۔ شیخ کاظؒم ایک غیر معمولی شخصیت کے مالک اور صاحب کرامت انسان تھے۔
شیخ عباس قوچانیؒ جن کے ہاں آپ نے علم فلسفہ کے لیے زانوئے تلمذ تہہ لیا۔
سائنسی علوم کے دروس
حوزاتِ علمیہ میں تعطیلات کے دوران بعض اساتذہ خصوصی دروس دیتے ہیں۔ چھٹیوں میں دیے جانے والے ان دروس کو حوزوی اصطلاح میں”جنبی دروس“ کہا جاتا ہے۔
ماہ رمضان المبارک کی تعطیلات میں مسجد ہندی میں شیخ مجتبیٰ لنکرانیؒ درس دیا کرتے تھے جس میں محسن ملت بلا ناغہ شرکت کرتے تھے۔ آقا لنکرانیؒ کے دروس سائنس کے موضوع پر ہوتے تھے۔یہ آپ کے لیے بہت دلچسپ اور پسندیدہ موضوع تھا ۔آپ فرماتے تھے کہ ان دروس سے آپ کی دنیا ہی بدل گئی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ کتابوں کے انتخاب، ان کے مطالعات کے طور طریقوں اور روش میں تبدیلی آئی بلکہ فکر و نظر کی نئی راہیں بھی کھلیں۔ اس وقت انہیں ایسے لگا گویا انہوں نے علوم کی منفرد اور انوکھی وادی دریافت کر لی ہو۔
حوزہ علمیہ نجف اشرف کے بعض یادگار لمحات
حوزہ علمیہ نجف میں محسن ملت کے دورِ طالب علمی کے سارے واقعات کا احصاء ممکن نہیں ۔یہاں ان میں سے بعض چیدہ چیدہ واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
عراق روانگی سے قبل پاکستان ہی میں اپنی صلاحیت، فکری نبوغ اور سعی و عمل کے بل بوتے عربی زبان سے بھرپور آشنائی حاصل کرنے کے بعد محسن ملت نے نجف اشرف پہنچتے ہی چھ ماہ کے اندر شہرۂ آفاق کتاب ”النہج السوي فی معنی المولیٰ والولی“ لکھی۔ اس گرانقدر تحریر میں میں آپ نے ”لفظِ مولیٰ“ کے معنی میں بے جا تاویلات کرکے امیرالمؤمنینG کی ولایت کا انکار کرنے والوں پر علمی و تحقیقی انداز سے اتمام حجت کیا ہے ۔اس کتاب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ملت تشیع کی نابغۂ روزگار شخصیت یعنی ”الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ“ کے مؤلف آیت اللہ بزرگ طہرانیؒ نے اس پر تقریظ لکھی۔
نجف میں طالب علمی کا ابتدائی زمانہ آپ کے لیے دنیوی مال و متاع کے حوالے سے شدید فقرو فاقہ اور تنگدستی کا دورجبکہ علمی ذخائر کی جمع آوری کے حوالے سے زرین ترین دور تھا۔ اس دور میں دو دینار کے وظیفے میں سے ایک دینار مکان کے کرائے میں چلا جاتا اور باقی ایک دینار سے گھر کے باقی اخراجات کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔
اسی دوران آپ کے فرزند اکبر شیخ محمد اسحاق نجفی کی پیدائش ہوئی۔ وہ ابھی چند ماہ کے تھے کہ آپ کی اہلیہ محترمہ نے ایک روز آپ سے عرض کی کہ ان کے پاس پہننے کے لیے لباس کا ایک ہی جوڑا ہے جس پر انہوں نے اب تک گزارا کیا مگر اب چونکہ ان کا ایک چھوٹا بچہ بھی ہے لہذا لباس کو بار بار پاک کرنے اور نماز کی ادائیگی میں بہت دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ لہذا آپ لباس کا ایک اور جوڑا خریدیں۔اس وقت آپ نے اس کا زبان سے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اپنا بوسیدہ جوتا اٹھا کر ان کے سامنے رکھ دیا جو اوپر سے تو بظاہر صحیح و سالم تھا مگر اس کا تلوا اتنا گھس چکا تھا کہ سوراخ ہوگیا تھا گویا آپ جوتے کے بغیر ننگے پاؤں زمین پر چلتے رہ رہے تھے۔ فرمایا کہ ایک عرصے سے میں اسی جوتے کے ساتھ چل رہا ہوں۔
بقول محسن ملت حوزہ علمیہ نجف کی تدریسی زبان فارسی تھی،عربی میں بہت کم پڑھایا جاتا تھا۔ طلبا اپنے اساتید کا انتخاب خود کرتے تھے،ایک ہی موضوع پر بہت سارے علما درس دیتے تھے۔ نجف میں مباحثے کی مرکزی جگہ مسجد ہندی تھی۔
جب محسن ملت نجف اشرف تشریف لائے تو عین جوانی کا عالم تھا۔ اعضاء توانا اور صحت مند تھے۔ آپ کو جسمانی تھکاوٹ کا احساس تک نہ ہوتا تھا خصوصاً دوران مطالعہ آپ کو ارد گرد کی خبر تک نہ ہوتی تھی۔ امام علیG کے فرمان کے مطابق آپ نے فرصت کے ان لمحات سے بھر پور استفادہ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ حوزہ علمیہ میں دروس کے بعد آپ کا اکثر وقت لائبریری میں گزرتا تھا۔ اس کے بعد حرم امیر المومنینG کی لائبریری اور آیۃ اللہ الحکیم کے کتابخانے میں جاتے اور گھنٹوں بیٹھ کر کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔ اکثر اوقات لائبریرین آپ کو متوجہ کرتا تھا کہ مطالعے کا وقت ختم ہو چکا ہے ۔
آپ رات کے کھانے کے بعد کتابخانۂ آیت اللہ حکیمؒ میں با قاعدگی سے جاتے تھے۔ ایک بار معمول کے مطابق آپ مطالعے میں محو ہوگئے۔ رات کا ایک پہر گزر گیا اور لائبریری کا وقت بھی تمام ہوگیا۔ ادھر لائبریرین انتظار کرتا رہا کہ آپ کب اٹھیں گے تاکہ کتاب خانہ بند کیا جائے مگر آپ رات گئے تک مسلسل پڑھتے رہے۔ آخر کار لائبریرین کا پیمانہ ِصبر لبریز ہوگیا اور اس نے گزارش کی: یا شیخ! کتاب خانے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اس وقت آپ اس قدر انہماک کے ساتھ مصروف مطالعہ تھے کہ ایک لمحے کے لیے آپ کو یاد نہیں آ رہا تھا کہ اس وقت کہاں ہیں؟
وطن عزیز پاکستان واپسی
محسن ملت نجف اشرف میں پوری یکسوئی اور دل جمعی کے ساتھ خرمنِ علم سے خوشہ چینی کر رہے تھے کہ یکایک عراق کے اندرونی حالات نے پلٹا کھایا اور جابر حکمران صدام نے دینی مراکز پر شب خون مارنا روز کا معمول بنا لیا۔ سلسلہ درس و تدریس رک گیا اور حوزہ علمیہ میں معمولات زندگی اجیرن بنا دیے گئے۔
گویا اب وہ وقت آں پہنچا تھا کہ محسن ملتؒ اپنی زندگی کا چوتھا اور اہم ترین فیصلہ کرلیں۔ اس وقت آپ نے پاکستان واپسی کا مصمم ارادہ کر لیا۔ بعد ازاں یہ فیصلہ بالکل درست ثابت ہوا کیونکہ آپ کے واپس آنے کے ایک سال بعد ہی حزب بعث کی حکومت نے تمام غیر ملکی طلاب کو واپس بھیج دیا۔
اسلام آباد کے انتخاب کی وجہ
حوزہ علمیہ نجف میں حصول علم کے دوران دوستوں کے ہمراہ ہونے والی محافل میں اکثر تبلیغ دین کے متعلق گفتگو ہوتی تھی۔ تب اس راہ کی مشکلات اور ان کا حل موضوع سخن رہتی تھیں۔انہی نجی محافل میں آپ کے دیرینہ رفیق علامہ سید ساجد علی نقوی مد ظلہ (قائد ملت جعفریہ) نے مشورہ دیا کہ اسلام آباد ویران پڑا ہے،لہذا آپ کو چاہیے کہ آپ جا کر اسے آباد کریں آپ فرماتے ہیں کہ ان کی بات میرے دل کو لگی ،تاہم اس میں مشکل یہ تھی کہ اسلام آباد مکمل طور پر اجنبی شہر تھا اور اس میں کوئی جان پہچان نہ تھی۔ تاہم آپ کا عزم صمیم کارگر رہا۔ تمام تر مصیبتیں اور سختیاں جھیل کر آخر کار آپ نے قوم و ملت کو جامعہ اہل بیت کی صورت میں ایسا مرکز تیار کرکے دیا جس کی برکات کی نظیر برصغیر پاک و ہند میں نہیں ملتی۔
عالم بے سروسامانی میں آغاز کار خیر
محسن ملتؒ کو وہ دن نہیں بھولے جب اسلام آباد میں مدرسے کے لیے جگہ تو الاٹ ہو گئی لیکن اس خالی جگہے پر اس وقت کوئی عمارت نہیں تھی۔ ایسے میں آپ نے اسی ویرانے میں ایک چھپر ڈالا اور چند طالب علموں کو لے کر پڑھانے بیٹھ گئے۔ انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں انھوں نے طلباء کو پڑھانا شروع کیا۔ آپ کا ہمیشہ یہی شیوہ رہا کہ کبھی وسائل کا انتظار نہیں کیا بلکہ اپنے تئیں کام شروع کیا اور خداوند عالم نے اسباب و وسائل عطا کیے۔جامعۃ اہل البیت کے بعد یکے بعد دیگرے آپ نے مدارس کا جال بچھایا۔اس کے علاوہ اسوہ ایجوکیشن سسٹم کے زیر اہتمام انٹرمیڈیٹ ، ٹیکنکل، پیرا میڈیکل،IGSCکالجز، سکولز اور دیگر اداروں کا قیام عمل میں آیا جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
جامعۃ اہل البیت D کا قیام
محسن ملت طاب ثراہ نے پہلے پہل امام بارگاہ 2/G-6 اسلام آباد کے دو کمروں میں چند طالب علموں کے ہمراہ ایک عارضی مدرسہ شروع فرمایا اور ساتھ ساتھ مستقل مدرسہ کے لیے زمین کی تگ و دو بھی جاری رکھی۔امام بارگاہ کی انجمن کے سیکرٹری مرحوم سید صغیر حسین جعفری نے اس سلسلے میں زبردست تعاون فرمایا۔محسن ملت کا بیان ہے کہ کاظمی صاحب سی ڈی اے کے چئیرمین تھے۔ ہم بار بار ان کے پاس پلاٹ کے لیے جاتے تھے۔
آخر کار آپ سیکٹر ایف سیون فور میں مدرسہ کے لیے زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔اسلام آباد کے قلب میں دینی مدرسے کی بنیاد رکھنا مرجع جہان تشیع آیت اللہ سید ابو القاسم الخوئی 7کی نظر میں اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ آپ نے اپنے فرزند ارجمند جناب سید جمال الدین الخوئی کو اس مدرسے کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے اسلام آباد بھیجا۔
یوں یہ مدرسہ اپنے قیام کے ابتدائی ایام سے ہی مرکزِ خیر اور منبعِ خدمات قرار پایا۔
محسن ملتؒ بھی اپنی تمام تر دینی خدمات کی بنیاد جامعہ اہل بیت کو قرار دیتے تھے۔ آپ فرماتے تھے: میں جب کبھی کسی سفر سے واپس پہنچتا ہوں تو جامعہ اہل بیت نظر آتے ہی اسے سلام کرتا ہوں۔یہ مدرسہ ام المدارس ہے کیونکہ دیگر تمام 100 سے زائد تعلیمی ادارے اسی مبارک مدرسے کا تسلسل ہیں۔جن میں سے سر فہرست کلیۃ اہل البیت Dچنیوٹ ہے جس کی تعمیر کے دوران آپ پوری کلاس لے کر تقریباً چھ ماہ چنیوٹ میں رہے ،تاکہ اس کے کام کی نگرانی بھی ہو اور شاگردوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ بھی جاری رہے۔ ان تمام مدارس سے اب تک فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں طلاب بالواسطہ یا بلا واسطہ اسی مبارک مدرسے کا ثمر ہیں جو پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں مصروف خدمت ہیں۔
تربیتی دروس
جب آپ نجف اشرف سے واپس تشریف لائے تو وہ زمانہ کمیونزم اور سوشلزم کی فکری یلغار کا دور تھا۔ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں ان فاسد افکار نے مسلم جوانوں کو اپنے نشانے پر لیا ہوا تھا جبکہ اس شدید فکری یلغار کے مقابلے میں جوانوں کو صحیح افکار و عقائد کی رہنمائی کے ذریعے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ان دنوں عراق میں آپ کے استاد بزرگوار سید شہید باقر الصدرؒ نے اس یلغار کا راستہ جس طرح سے روکا اسی طرح آپ نے پاکستان میں نوجوانوں کی رہنمائی اور اسلامی نظام کی تبلیغ و تبیین کا فیصلہ فرمایا۔ یوں آپ نے ملک کے گوشہ و کنار میں مساجد، امام بارگاہوں، کالجز،یونیورسٹیوں اور دیگر جگہوں پر دروس کا اہتمام کیا۔ آپ نے جوانوں کی فکری اور اخلاقی تربیت کی تحریک چلائی۔ اس تحریک میں آپ تن تنہا ایک لشکر کا کردار ادا کر رہے تھے۔آپ کے انہی دروس نے جہاں کیمونزم کی خطرناک فکری یلغار سے جوانوں کو بچایا وہاں انہیں اخلاقی اور اعتقادی اعتبار سے بھی مضبوط کیا۔
آخر کار یہ تربیت یافتہ جوان آپ کے دست و بازو بن کر ابھرے۔ انہوں نے مختلف اداروں اور تنظیموں میں فعال کردار ادا کیا۔ آپ کے اداروں کی کامیابی کا ایک اہم راز بھی یہی ہے کہ آپ نے انہی جوانوں کی خدمات اپنے اداروں میں حاصل کیں جن کی علمی، اخلاقی اور اعتقاد ی تربیت خود آپ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔
نشریاتی اداروں کا قیام
معاشرے کی ہمہ جہت اصلاح و رہنمائی کی تحریک میں آپ نے یہ ضروری سمجھا کہ دروس کے ساتھ ساتھ معارف اہل بیت لوگوں کے گھروں میں بھی پہنچیں۔ اس کے لیے مختلف کتابوں کی تالیف و تدوین اور ترجمہ و اشاعت کی ضرورت تھی۔ اس اہم ترین ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے آپ نے شعبہ نشریات جامعہ اہل البیت کے نام سے ادارہ قائم کیا جس نے وقت کے تقاضوں کے مطابق بیش بہا کتابوں کی نشر و اشاعت کا کام کیا۔
مجلہ الزہراء
دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ آپ نے پڑھے لکھے اور روشن فکر جوانوں کے لیے ماہانہ مجلہ الزہراء کا اجرا کیا جو دارالخلافہ اسلام آباد سے چھپنے والا واحد شیعہ مجلہ تھا۔الزہراء میں اس وقت کی ضرورت کے مطابق مختلف موضوعات پر مضامین شائع ہوتے رہے۔ اس مجلے نے جوانوں کی فکری اصلاح و رہنمائی میں بڑا کردار ادا کیا۔
سہ ماہی ثقلین اور ماہنامہ معصوم
ماہنامہ الزہراء کے بعد معاشرتی ضرورت اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق دو عظیم الشان مجلوں کی اشاعت شروع کی گئی۔ ایک سہ ماہی علمی تحقیقی مجلہ ثقلین اور دوسرا ملت کے نو نہالوں کے لیے ماہنامہ معصوم۔ یہ محسن ملت کے اخلاص کا نتیجہ تھا کہ یہ دونوں مجلے انتہائی مقبول اور مفید ثابت ہوئے۔ مجلہ ثقلین ایک تحقیقی جریدہ تھا یہاں تک کہ لوگ انتظار میں رہتے تھے کہ اگلا شمارہ کب ملے گا۔ خصوصاً رسالہ معصوم ہر سن و سال کے لوگوں میں اس قدر مقبول ہوا کہ اسے چھوٹے بڑے سب پڑھتے تھے۔ محسن ملت اس بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ معصوم کو چھوٹے بچوں سے زیادہ بڑے پڑھتے ہیں۔ یہ دونوں مجلات ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتے تھے۔ ملت کے ہزاروں افراد ان کے ذریعے اپنی معرفت و دانش اور ایمان کو پروان چڑھاتے رہے۔
مساجد کی تعمیر
مسلم معاشرے میں مسجد کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ محسن ملتؒ نے ملاحظہ فرمایا کہ پاکستان میں شیعہ آبادی کے لحاظ سے مساجد کی تعداد بہت کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں آپ نے بڑی خاموشی اور دور اندیشی سے اس کمی کو پوری کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ آپ نے سب سے پہلے مسجد امام صادقG-9/2اسلام آباد کی بنیاد رکھی۔ پھر دار الخلافہ کے دیگر سیکٹرز اور ملک کے مختلف شہروں میں مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت پاکستان میں آپ کی بنائی ہوئی مساجد کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔
اسوہ ایجوکیشن سسٹم کا قیام
1994ء میں محسن ملت نے ”اسوہ سکول سسٹم“ کے نام سے تعلیم و تربیت کے ایک جامع منصوبے پر عملدرآمد شروع کیا۔ پاکستان کے بعض پسماندہ علاقوں سے اس مبارک سلسلے کا آغاز کیا گیا جہاں یا تو تعلیم تھی ہی نہیں یا پھر معیاری تعلیم کا تصور ناپید تھا۔ ان پسماندہ علاقوں سے اس تعلیمی انقلاب کا آغاز یہ بتانے کے لئے کافی تھا کہ پرائیوٹ تعلیمی ادارہ ایک منافع بخش کاروبار نہیں بلکہ اسے ملک میں تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور غریب بچوں تک معیاری تعلیم کی رسائی کا ذریعہ ہونا چاہئے ۔ پاکیزہ نیتوں کی زرخیز زمین میں پُر خلوص جد و جہد کی توانائی سے غذا لیتا ہوا یہ پاکیزہ پودا ”ما کان للہ ینمو“ (جو کام خدا کے لئے ہو وہ پھلتا پھولتا ہے) کا مصداق بن کر پھلنے پھولنے لگا۔ پورے ملک میں اس شجرِ سایہ دار کے پھولوں کی مہک محسوس ہونے لگی ، خصوصاً گلگت بلتستان جیسے خطے میں یہ اقدام تعلیمی میدان میں ایک خاموش انقلاب تھا ، جسے اب ہر صاحب شعور انسان محسوس کرتا ہے اور محسن ملت کی بصیرت و دانشمندی کا اعتراف کرتا نظر آتا ہے ۔
اب تک اس تعلیمی نظام میں 75 سے زائد سکولوں نیز میڈیکل اور ٹیکنیکل اداروں سمیت 18 کالجوں اور ایک یونیورسٹی کا گلدستہ ملک و قوم کی خدمت میں پیش کیاجا چکا ہے۔ اسوہ سکول سسٹم میں تعلیم اور تربیت کو یکساں اہمیت دی جارہی ہے۔ اس سکول سسٹم سے اب تک50 ہزار سے زائد طالب علم فارغ التحصیل ہو چکے ہیں ، جو اس وقت زندگی کے مختلف شعبوں میں ملک وقوم کی خدمت میں مصروف ہیں ،جبکہ اس وقت اسوہ ایجوکیشن سسٹم میں 25 ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں ۔
طبی خدمات
قوم و ملت کے دردمند اس شفیق و مہربان ہستی نے جب حفظان صحت کی راہ میں موجود مشکلات خاص طور پر پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں میں لوگوں کے لئے علاج معالجے کی عدم دستیابی کو دیکھا تو اس میدان میں بھی اپنا مبارک قدم رکھا۔آپ نے کئی ہسپتال اور ڈسپنسریاں بنائیں جن میں سر فہرست سکردو شہر میں عبداللہ ہسپتال کا قیام ہے۔ اسے 1998 میں بنایا گیا جہاں سے اب تک لاکھوں افراد مستفید ہو چکے ہیں۔ بحمد اللہ یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ خیر پور سندھ ،چنیوٹ، پنڈ دادن خان اور اسلام آباد سترہ میل کے مقام پر ہسپتال بنائے گئے۔علاوہ ازیں متعدد شہروں اور قصبات میں ڈسپنسریاں بنائی گئیں جن سے ہزاروں افراد روزانہ مستفید ہو رہے ہیں۔
باقاعدہ ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کے قیام کے علاوہ آپ نے زلزلہ، سیلاب، اور دوسرے طبیعی افات سے متاثرہ علاقوں میں ملک کے مایہ ناز ڈاکٹرز کے ذریعے حسب ضرورت میڈیکل کیمپوں کا انعقاد فرمایا اور مفت ادویات تقسیم کیں جن کے ذریعے ضرورت مند لوگوں کی بنیادی طبی ضروریات پوری کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔
جامعۃ الکوثر
1992ء پاکستان کی دینی تعلیم کی تاریخ میں ایک سنہرے باب کے اضافے کا سال تھا جب دارالخلافہ اسلام آباد کے نہایت اہم سیکٹرH-8/2 میں برصغیر کے مایہ ناز تعلیمی ادارہ جامعۃ الکوثر کی بنیاد رکھی گئی۔ آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئیؒ نے اپنے فرزند ارجمند سید محمد تقی خوئی کو خصوصی طور پر پاکستان بھیجا تاکہ وہ مرجع عالی قدر کی نیابت میں اپنے ہاتھوں سے اس جامعہ کا سنگ بنیاد رکھیں۔ سیدہ طاہرہ جناب فاطمہ زہراء K سے مودت کے اظہار اور آپ کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لیے اسے ”الکوثر“ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ الخوئی فاونڈیشن کے قابل فخر اداروں میں نمایاں اور خاص پہچان بنا چکا ہے۔ جامعہ الکوثر کی تاسیس کے حوالے سے خود محسن ملتؒ کے یہ الفاظ تھے: جامعۃ الکوثر کو قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسی درسگاہ ہو جو علوم کی غیر منطقی تقسیم کو ختم کر کے اسلامی تعلیمات کی اصالت اور فکر ساز پہلو کو اجاگر کرے، جہاں تمام علوم کے درمیان ایک حسین امتزاج موجود ہو نیز دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے بھی طلاب کو روشناس کرایا جائے۔ ان کی اس طرح تربیت کی جائے کہ علوم میں قدیم و جدید کا تصور ختم ہو جائے کیونکہ قرآن مجید اور اس کی تعلیمات ہر دور اور ہر نسل کے لیے جدید ہیں۔ ہر پڑھنے اور سمجھنے والے کے لیے اس کے اندر تازگی اور روح پرور مفاہیم موجود ہیں۔
جامعۃ الکوثر کی تاسیس در اصل اس سلسلے کا پہلا قدم ہے۔ 50 کنال کے رقبے پر محیط اس مایہ ناز تعلیمی ادارے نے 2002ء سے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا۔ محسن ملتؒ کی بے مثال صلاحیتوں کی بدولت یہ بہت ہی مختصر مدت میں حوزہ ہائے علمیہ کے درمیان اپنا بلند مقام بنانے میں کامیاب ہوا۔ پاکستان میں مکتب اہل بیتD کے پیروکاروں کے لیے خدا کی یہ عظیم نعمت پاکستان میں تشیع کی امتیازی نشانیوں میں سے ایک بڑی علامت بن چکی ہے۔ اپنے تعلیمی سفر کے آغاز سے لے کر اب تک اس درسگاہ نے مقصد تاسیس کے مطابق دینی و عصری تعلیم کے حسین امتزاج کے محسن ملتؒ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ درس خارج، فقہ و اجتہاد اور علوم قرآن و تفسیر و حدیث کے سینکڑوں طلاب کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی،ایم فل اور ایم اے کی سطح کے دسیوں سٹوڈنٹس نہ صرف عصری تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ مختلف تعلیمی شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر پانچ سے زیادہ گولڈ میڈل اپنے نام کر چکے ہیں نیز جامعۃ الکوثر کے فارغ التحصیل اسکالرز کی ایک تعداد مختلف سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں مصروف خدمت ہیں۔
مدینۃ اہل بیت سکردو
سکردو بلتستان میں مدینہ اہل بیت فلاحی کالونی غریبوں کی مدد اور غربت کے خاتمے کا ایک نہایت جامع اور بے مثال منصوبہ ہے۔اس منصوبے نے سینکڑوں غریبوں کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے ۔
2001ء میں یہ کالونی بنائی گئی اور سینکڑوں گھرانے اب بھی اس عظیم نعمت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 240 کنال رقبے پر محیط یہ کالونی 378 گھروں پر مشتمل ہے۔ان گھروں میں378خاندان اور مجموعی طور پر 2645 افراد رہائش پذیر ہیں جنہیں کھانا،بچوں کی تعلیم اور صحت کی سہولیات بالکل مفت مہیا کی جاتی ہیں۔
حسینی فاونڈیشن
2005 کے زلزلے سے جب پورا ملک بالعموم جبکہ کشمیر و مانسہرہ بالخصوص متاثر ہوئے تو محسن ملت نے ان متاثرین کی مدد کے لئے حسینی فاونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ آپ نے متاثرہ علاقوں میں امداد پہچانے اور زخمیوں کے علاج کا بہترین انتظام فرمایا۔ آپ نے پاکستان آرمی سے ہیلی کاپٹر کرائے پر لے کر کاغان کے زخمیوں کو ایبٹ آباد اور اسلام آباد کے ہسپتالوں تک پہنچایا۔ آپ نے ان علاقوں میں جہاں فوری ضرورت کی چیزیں بروقت پہنچانے کا انتطام کیا وہاں زخمیوں کا علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کو خیمہ بستیوں میں منتقل کر کے مہینوں کفالت کی، اس سلسلے میں 3 مقامات (مظفر آباد کشمیر، مانسہرہ اور اسلام آباد) پر خیمہ بستیاں بنائی گئیں جن میں مجموعاً 1800 خاندانوں کو تقریباً 6 ماہ تک تمام تر سہولیات کے ساتھ رکھا گیا اور پھر ان کی گھروں کی تعمیر نو کے بعد انہیں اپنے گھروں میں واپس بھیجا گیا، نیز ان علاقوں میں تباہ ہونے والے14 ہزار گھروں کی تعمیر نو اور بغیر کسی مسلکی تفریق کے تمام متاثرین کے لئے چھت فراہم کرنے کی جانب بھی توجہ دی۔ یوں آپ نے کشمیر، مانسہرہ اور پارس وغیرہ میں ہزاروں گھر بنا کر مستحقین کو عطا کئے اور بیسیوں مساجد بنا کر دیں۔
ہادی ٹی وی
پاکستان میں مذہب اہل بیت D کے پہلے سیٹلائٹ چینل ہادی ٹی وی کو محسن ملتؒ بے حد اہمیت دیتے تھے۔ اس چینل کا بانی ہونے کی حیثیت سے تمام پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کے ہر مرحلے میں آپ نے دقیق انداز سے نظارت فرمائی۔ ہادی ٹی وی پر نشر ہونے والے مواد کے انتخاب کے حوالے سے بھی محسن ملتؒ بہت باریک بینی سے کام لیتے تھے۔ آپ اس چینل کو معارف اہل بیت کی نشرو اشاعت کی راہ میں ایک انقلابی قدم سمجھتے تھے۔ہادی ٹی وی نے ہر قسم کی تنگ نظری اور تعصب سے بالاتر ہو کر تعلیمات، قرآن و اہل بیت کو لوگوں تک پہنچانے میں تاریخی کردار ادا کیا جس سے قوم کا بچہ بچہ آگاہ ہے۔ محسن ملتؒ نے دراصل اس ٹی وی چینل کے ذریعے مذہب اہل بیت کے روشن چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ یہ چینل مذہب اہل بیت کے بارے میں پھیلائے گئے زہرآلود پروپیگنڈوں کو لوگوں کے ذہن سے دور کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہا۔
مؤسسہ الکوثر نجف اشرف عراق
دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلاب اعلی تعلیم کے حصول کے لیے حوزات علمیہ کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ مراجع عظام اور دیگر جید اساتذہ سے کسبِ فیض کرتے ہیں۔ محسن ملتؒ نے دینی تعلیم کا جو مربوط نظام بنایا اس میں ابتدائی تعلیم جامعۃ اہل البیت اور دیگر مدارس اہل بیت میں حاصل کی جاری ہے۔ اس کے بعد مدارس کے نصاب کی آخری کتاب کفایہ و مکاسب تک کی تعلیم جامعۃ الکوثر میں فراہم کی جاتی ہے۔اس کے بعد درس خارج کے لیے حوزہ علمیہ نجف اشرف کا رخ کیا جاتا ہے۔ جامعۃ الکوثر سے فارغ التحصیل طلاب کو حوزہ علمیہ نجف اشرف میں بہترین انداز سے تعلیم و تربیت کا سلسلہ فراہم کرنے کے لیے آپ نے سن 2011ء میں نجف اشرف میں موسسہ الکوثر کی بنیاد رکھی۔ موسسہ الکوثر دو خوبصورت اور بہترین سہولیات سے آراستہ مدارس پر مشتمل ہے جن میں سے ایک تو جامعۃ الکوثر اسلام آباد سے فارغ التحصیل طلاب کے لیے مختص ہے جبکہ دوسرا مدرسہ حوزہ علمیہ نجف میں موجود پاک و ہند کے ہونہار طلاب کے لیے فن خطابت سکھانے اور تربیتِ واعظین کے لیے وقف ہے۔ ان مدارس کا انتظام و انصرام جامعۃ الکوثر اسلام آباد کے فارغ التحصیل طلاب ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ دونوں مدرسے حوزہ علمیہ نجف اشرف میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔ اپنی تعلیمی مصروفیات کے علاوہ مؤسسہ الکوثر کے طلباء حوزہ علمیہ نجف میں تدریس بھی کرتے ہیں نیز مختلف مناسبتوں پر حوزہ علمیہ کی سطح پر مفید پروگراموں کے علاوہ سالانہ بین الاقوامی سیدۃ نساء العالمین کانفرنس کا اہتمام بھی مؤسسہ الکوثر نجف کے طلاب ہی کرتے ہیں۔ مؤسسہ الکوثر میں مدرسہ تربیت واعظین کی ضرورت کے حوالے سے محسن ملتؒ اپنی کتاب ”الخطابۃ امانۃ و رسالۃ“ میں یوں رقمطراز ہیں:
”1431ھ کو میں نجف اشرف پہنچ کر مرجع عالی قدر حضرت آیت اللہ سیستانی مد ظلہ کی دست بوسی کے لیے حاضر ہوا۔ میں نے پاکستانی معاشرے میں موجود فکری و اعتقادی مشکلات کا ذکر کیا تو آپ نے تربیت واعظین کے لیے ایک مدرسہ کھولنے کا حکم دیا تاکہ گمراہی پھیلانے والوں کو خاموش کرایا جا سکے۔ میں نے جب آپ کا حکم سنا تو اپنے دل ہی دل میں یہ کہا کہ میرے لیے اس حکم کی تعمیل کی راہ میں بہت سی مشکلات حائل ہیں لیکن گویا آپ کے ان کلمات کا ملکوتی اثر تھا کہ اس مدرسے کے وسائل و اسباب پیدا ہوئے اور الحمدللہ میں نے تربیت واعظین کا یہ ادارہ قائم کر لیا۔“
تربیتی خدمات
دین اسلام کی تبلیغ و ترویج علمائے کرام کی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری ہے۔ محسن ملت نے جو بھی خدمات انجام دیں ان سب کا بنیادی ہدف مکتب اہل بیت کی ترویج ہی تھا۔
مملکت عزیز پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر عزاداری سید الشہداء اور اس مقدس عبادت سے جڑے دیگر عوامل کی جانب آپ نے خصوصی توجہ فرمائی۔
محرم الحرام کے مہینے میں آپ بطور بانیٔ مجلسِ عزا اپنے اداروں میں مجالس کا خاص اہتما م فرماتے اور نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ عزادارن سید الشہداء کی خدمت فرماتے تھے۔ آپ ایام فاطمیہ کو محرم الحرام کی طرح بھرپور انداز میں منانے اور جناب سیدہ K کی مظلومیت کو دنیا کے سامنے بیان کرنے کی ضرورت سے بخوبی آشنا تھے اور اس پر زور دیتے تھے۔ اسی لئے آپ نے اپنے طلاب اور ہادی ٹی وی کے ذریعے اس مشن کو آگے بڑھایا۔ آپ نے ملک کے گوشہ و کنار میں ایام فاطمیہ کی مجالس کا اہتمام کیا۔ 13 جمادی الاولی سے 3 جمادی الثانیہ تک کے عرصے کو بطورِ ایام فاطمیہ پاکستان میں رائج کرنے کی سعادت بھی آپ ہی کو حاصل ہوئی۔ یہ آپ پر سیدہ K کی خاص عنایت کی دلیل ہے۔ آپ ہر سال ایام فاطمیہ میں پچاس سے زائد مقامات پر خصوصی مجالس کا انعقاد فرماتے رہے اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ہر سال نئے مقامات پر مجالس کی بنیاد رکھی جائے۔عزادارئ سید الشہداء کو درپیش بیرونی خطرات کے خلاف آپ ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ آپ نے عزاداری کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو بے نقاب اور ناکام بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔
عزاداری کو داخلی خطرات سے بچانے کے لئے آپ نے نہایت بنیادی قسم کے اقدامات کئے۔ دینی علم کے حامل اچھے اور متدین علماء وخطباء کی حوصلہ افزائی ، بدعتوں کے خلاف شدید رد عمل اور خرافات سے عزاداری سید الشہداء کو بچانے کے لئے خطباء و واعظین کی خصوصی تربیت ان اقدامات میں شامل ہیں ۔آپ کی نظر میں خطباء و واعظین کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں ایک شعبہ واعظین کی تربیت کے لئے کھولا نیز نجف اشرف میں ”مدرسۃ الکوثر لتربیۃ الواعظین“ کے نام سے ایک بہترین مدرسہ اسی مقصد کے لئے خاص کر دیا۔ یہاں پاک و ہند کے طلابِ کرام جید علماء کی زیر نگرانی تربیت حاصل کر رہے ہیں ۔
محسن ملت کی روش یہ تھی کہ آپ قومی مسائل کو حل کرنے کے لئےمؤسساتی (اداراتی) انداز کو اپناتے تھے اور مکمل نظام سازی پر توجہ دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے تبلیغی امور کے لئے بھی مربوط نظام بنایا۔ آپ نے معاشرے کی فکری سطح کو بلند کرنے کے لئے فہمِ دین سمپوزیم ، بشارتِ عظمیٰ کا نفرنس ، حرم ہائے مقدس کے تعاون سے نسیمِ کربلا کانفرنسوں، فاطمہ سبیل نجات اور اس جیسے دیگر پروگراموں کا انعقاد فرمایا۔ آپ نے قوم کے نونہالوں کے لئے پورے ملک میں الکوثر تھاٹس کے زیر انتظام سالہا سال شارٹ کورسز کے انعقاد کا اہتمام کیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مرحوم نےاپنی نگرانی میں تربیت یافتہ جوان خطباء کے ذریعے اس کاروانِ علم و معرفت کو آگے بڑھانے کا انتظام فرمایا۔ اس وقت جامعۃ الکوثر کے موجودہ اور فارغ التحصیل طلبا کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ یہ علما و طلبا محرم الحرام اور ایام فاطمیہ کے علاوہ معصومین کی ولادت وشہادت پر مجالس و محافل سے خطاب فرماتے ہیں۔ محسن ملت کی اس با برکت کوشش کے نتیجے میں عزاداریٔ سید الشہدا اور دیگر دینی مجالس و محافل کی کیفیت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ آپ خود بھی اپنے تربیت کردہ ان خطباء سے فرمایا کرتے تھے کہ آپ لوگوں کی ہمت و کوشش سے ہم پاکستان میں ایک نئی تہذیب اور جدید معاشرے کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ اب اس معاشرے کو مزید بہتری کی جانب لے جانا آپ لوگوں کا کام ہے۔
البلاغ المبین
دینِ مبین کی تعلیمات کو اجاگر کرنے اور اہل بیت اطہار D کی تعلیمات کی نشر و اشاعت کے لیے ایک نشریاتی ادارہ البلاغ المبین کے نام سے قائم کیا گیا جس کا بنیادی مقصد بیان کرتے ہوئے محسن ملت خود رقمطراز ہیں: ” مکتب تشیع کے خلاف پھیلائے جانے والے غیر مستند اعتراضات و شبہات اور تحقیقی عنصر سے عاری تحریروں سے امت اسلامیہ جن اختلافات نیز جس افتراق اور منافرت کا شکار ہے اس کی یہ امت نہ متحمل ہے اور نہ ہی یہ اس کے مفاد میں ہے۔ بنا بر ایں مذکورہ شبہات کو رفع کرنا اور امت کے درمیان منافرت کی فضا کو مودت اور بھائی چارے کی فضا میں تبدیل کرنا اور اسلام دشمن عناصر کو امتِ مرحومہ کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کا موقع فراہم نہ کرنا ضروری ہے، تاکہ ہم حقیقی معنوں میں ”انما المؤمنون اخوۃ“ کا مصداق بن سکیں۔ مذکورہ اہداف کے حصول کے لیے ادارے نے سینکڑوں موضوعات پر ہزاروں کتابیں چھاپ کر مفت تقسیم کیں۔ ادارہ ملکِ عزیز پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے لیے علمی میدان فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
دارُ التحقیقِ للردِّ عَلیٰ شُبُھاتِ المُلحِدینَ
محسن ملتؒ جب نجف اشرف سے واپس پاکستان تشریف لائے تو کمیونزم جیسے فکری انحراف نے معاشرے کو خطرات سے دوچار کر رکھا تھا۔ آپ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں جوانوں میں الحادی افکار کے انتشار سے کافی پریشان تھے۔ ساری زندگی آپ کی یہی روش رہی کہ آپ خطرات کو بھانپنے کے بعد ان سے بچاؤ کے لیے کسی دوسرے کا انتظار کرنے یا تصوراتی حل پیش کرنے پر اکتفاء کرنے کی بجائے عملی طور پر اقدام فرماتے تھے۔ الحاد کے مسئلے پر بھی آپ نے پریشان ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی بجائے عملی اقدام فرمایا۔ آپ نے اس سلسلے میں اپنے ان شاگردوں کو جو مجالس عزا سے خطابات کرتے تھے خاص ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے خطبات میں اس مسئلے کی طرف لوگوں کو متوجہ کریں۔ اس کے ساتھ آپ نے مضبوط علمی بنیادوں پر اس مسئلے کے حل کے لیے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کرنے کا اعلان فرمایا اور اس سلسلے میں باقاعدہ کام کا آغاز کیا۔ بحمد اللہ جامعۃ الکوثر میں اب ”دار التحقیق للردّ علی شبُھات المُلحدین“ ایک مستقل ادارے کے طور پر فعال ہو چکا ہے۔ یہ ادارہ الحادی افکار کے تجزیہ و تحلیل نیز ان کے منابع و ماخذ اور مختلف الحادی گروہوں کے حوالے سے مکمل تحقیق و تبیین کے ساتھ الحادی شبہات کا مدلل اور مستحکم جواب دینے کے لئے مصروف عمل ہے۔
غریب پروری
ائمہ اطہار D کی سیرتِ طیبہ کے جس خاص گوشے کو محسن ملتؒ ہمیشہ اپنے شاگردوں میں بیان فرمایا کرتے تھے وہ ان ذواتِ قدسیہ کی غریب پروری ہے۔ آپ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اہل بیت D خصوصاً امیر المومنینG نے غریبوں کی مدد اور ان کی داد رسی کو کبھی کسی کے حوالے نہیں کیا۔ یہ کام ائمہD بذات خود انجام دیتے تھے۔ محسن ملت ائمہ D کی اس سیرت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عملی طور پر بھی کاربند رہے۔ آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے حاضر رہے۔ آپ فرماتے تھے کہ جو غریب پرور ی اہل بیت D فرماتے تھے ہم اس طرح کی غریب پروری نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی پشت پر لاد کر لوگوں کی ضرورت کی اشیاء ان کی دہلیز پر پہنچاتے رہے۔ ہمارے پاس تو ضرورت مند خود چل کر آتے ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے آپ ان حاجت مندوں کی صرف مالی مدد کرنے پر اکتفا نہیں فرماتے تھے بلکہ ان کے ساتھ نہایت ہمدرد ی اور شفقت کرتے اور ان کی دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھتے تھے۔ جامعۃ اہل البیت میں آپ کے کمرے کے ساتھ ہی ایک بڑا کمرہ اسلام آباد کے باہر سے دارالحکومت میں علاج کی غرض سے آنے والے مریضوں کے لیے مختص تھا۔ آپ خود اکثر انہی لوگوں کے ساتھ اس کمرے میں کھانا کھاتے اور ان کے علاج کے سلسلے میں پوچھتے رہتے تھے۔ اپنے جاننے والے مختلف ڈاکٹرز سے ان مریضوں کے لیے مشورے اور وقت کی درخواست بھی فرمایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جہاں آپ محسوس کرتے کہ مومنین کو مدد کی ضرورت ہے وہاں آپ سب سے پہلے پہنچتے اور بھرپور تعاون فرماتے تھے۔ ملک کے مختلف شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں سادات و غیر سادات مستحقین کی ماہانہ امداد ،موسم گرما اور سرما کی ضرورت کے لباس، راشن اور خانہ سازی وغیرہ کے وسائل کی فراہمی محسن ملتؒ کی غریب پروری کی کچھ مثالیں ہیں۔
سفر آخرت کی تیاری
موت وہ اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ اگرچہ بحیثیت مسلمان قیامت پر ہم سب کا اعتقاد ہے مگر اس کی تیاری میں ہم کتنے کوشاں ہیں یہ ہم سب پر عیاں ہے۔ دنیا میں بہت کم ایسی نابغہ روزگار شخصیات گزری ہیں جو اپنی اخروی حیات کی بابت کما حقہ ادراک رکھتے ہیں۔ محسن ملتؒ کی ذات گرامی بھی ان چند گنی چنی ہستیوں میں سے ایک تھی۔اس احساس کا بخوبی اندازہ آپ کے دو طرح کے رویوں اور اقدامات سے بھی ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ آپ کثرت سے موت کا ذکر کرنے لگے تھے۔ دوسرا یہ کہ آپ نے زندگی میں ہی اپنی لحد کی تیاری شروع کروا دی تھی۔
کثرت سے موت کا ذکر
آپ نجی محافل، درس اخلاق،خطابات حتی نصابی دروس میں بھی کثرت سے موت کا ذکر کیا کرتے تھے اور آخرت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند رہتے تھے یہاں تک کہ جامعۃ الکوثر میں اپنی حیات کے آخری درس اخلاق میں بھی طلاب کو آخرت کی تیاری کی طرف رغبت دلاتے ہوئے حضرت ابراہیمG کی یہ دعا بیان فرمائی:
وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ۔
مجھے اس روز رسوا نہ کرنا جب لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔
یہ دعائے ابراہیمی بیان کرتے ہوئے آپ کا لب ولہجہ نہایت اثر انگیز تھا۔اس دعا پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
”حضرت ابراہیم G کوقیامت کی ہولناکی کا صحیح ادراک تھا۔آہ۔! وہ ابو الانبیاء خدا کے خلیل پیغمبر جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست کہا وہ دعا کررہے ہیں کہ قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے مجھے رسوا نہ کرنا اور ہم ہیں کہ شیر بنے ہوئے ہیں جنہیں ذرہ برابر پرواہ نہیں۔ عزیزان! سوچیے اور اس رسوائی والے دن کے بارے میں خود کو آمادہ و تیار کیجیے۔“
امیر المومنینG سے والہانہ عقیدت و محبت کے سبب آپ موت سے نہ صرف گھبراتے نہیں تھے بلکہ اسےائمہ D کی زیارت کا وسیلہ جانتے تھے۔ آپ اکثر حضرت امیر المومنینG کی اس روایت کا ذکر کیا کرتے تھےجس میں آپ نےحارث ہمدانی سے ارشاد فرمایا تھا۔
”يَا حَارُ هَمْدَانَ! مَنْ يَمُتْ يَرَنِي۔“
اے حارِث ہمدانی! جو بھی مرتا ہے وہ مجھے دیکھتا ہے۔
اپنی لحد کی تیاری کا حکم
آپ نے اپنے دو صاحبزادوں علامہ شیخ محمد اسحاق نجفی اور علامہ شیخ انور علی نجفی کو اپنی وفات سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل حکم دیا کہ وہ آپ کے لیے لحد تیار کروائیں۔ اگرچہ یہ ان کے لیے بہت مشکل مرحلہ تھا،لیکن آپ کا حکم تھا تو انجام دہی کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔ لحد کی جگہ جامعہ کوثر کے باغیچے کے درمیان تجویز کی گئی جس کے گرد ایک کمرے کی تعمیر طے پائی جسے بطور کلاس روم، مطالعہ،مباحثہ،محافل ومجالس اور دیگر پروگراموں میں استعمال کیا جا سکے ۔آپ روزانہ کی بنیاد پر کام کی رپورٹ طلب کرتے تھے۔ ایک روز اپنے فرزند علامہ شیخ محمد اسحاق نجفی سے موبائل پہ فوٹو بھیجنے کا مطالبہ کیا۔ مرحوم آخری دم تک اس کام کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کی برابر تاکید کرتے رہے، جس کا راز آپ کی اچانک رحلت سے کھلا۔
سانحہ ارتحال
عام طور پر آپ صبح کا ناشتہ نو بجے کے قریب کیا کرتے تھے، ان دنوں معروف عالم دین علامہ شیخ حسن جعفری مد ظلہ (امام جمعہ سکردو) بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جس روز آپ کا سانحہ ارتحال پیش آیا اس روز صبح ناشتے کے لیے جب آپ کمرے سے باہر تشریف نہیں لائے تو آپ کا خادم آپ کو بلانے کے لئے کمرے میں داخل ہوا، کیا دیکھتا ہے کہ آپ پوری طرح قبلہ رُخ ہو کر قالین پر دراز ہیں۔ خادم نے فورا شیخ محمد حسن جعفری مد ظلہ کو اطلاع دی، شیخ جعفری صاحب فرماتے ہیں :
مجھے خبر ملی کہ شیخ صاحب عجیب انداز میں بیٹھے ہیں۔ فوراً پہنچ کر دیکھا یا اللہ! ٹھیک ٹھاک دونوں پاؤں قبلے کی طرف کر کے آرام سے سوئے ہوئے ہیں، آپ کا منہ اور دونوں آنکھیں بند ہیں۔ گویا آپ کو موت کی خبر پہلے ہی مل گئی تھی جس کے لیےآپ تیار اور راضی برضا تھے ۔ میں نے آواز دی :لے حاجی آغا! لیکن جواب نہیں آیا۔ ان کے پاؤں کے اوپر ہاتھ رکھا۔ پاؤں ٹھنڈا تھا، سینے پہ ہاتھ رکھا تو گرم تھا۔جامعہ اہل البیت D کے اساتیذ کو خبر دی اور انہیں بیڈ پہ رکھا۔ میں نے ان کے فرزند اکبر آقائ شیخ محمد اسحاق صاحب سے کہا ابو کی حالت انتہائی خراب ہے، آپ آتے ہوئے ایمبولینس ساتھ لے آئیے۔ وہ پریشان ہوئے اور فوراً پہنچ گئے۔ پھر ایمبولینس آگئی اور انہیں کلثوم ہسپتال لے گئے ڈاکٹروں نے ان کی رحلت حسرت آیات کی المناک خبر دی۔
09 جنوری 2024 بروز منگل صبح 10:30 بجے اس عظیم بطلِ اسلام نے دعوتِ حق کو لبیک کہا۔آپ امیر المومنینG کی زیارت کرکے بارگاہ احدیت میں حاضر ہوئے۔ محسن ملتؒ کے انتقال پر ملال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح اندرون و بیرون ملک پھیل گئی۔ حوزہ ہائے علمیہ اور مدارس دینیہ کے ساتھ ساتھ دیندار مومن گھرانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے مومنین و مومنات کثیر تعداد میں گریہ و بکا کرتے ہوئے جامعۃ الکوثر کی جانب روانہ ہو گئے جبکہ دیگر شہروں سے بھی سوگواران کے قافلوں کی روانگی کی اطلاعات آنے لگیں۔
محسن ملت کے جسد خاکی کو پہلے مسجد و امام بارگاہ امام صادقG لے جایا گیا۔ تجہیز و تکفین کے بعد وہاں سے جامعۃ الکوثر لایا گیا۔ اگرچہ نماز جنازہ کی ادائیگی اگلے روز ہونا تھی لیکن اس سے بہت پہلے ہی جامعۃ الکوثر سوگواران کے ہجوم سے کھچا کھچ بھر گئی، یہاں تک کہ اس کے ارد گرد واقع سڑکوں پر بھی لوگوں کی موجودگی کے سبب ٹریفک کا نظام معطل ہو کر رہ گیا۔ محسن ملت کی نمازِ جنازہ میں ملتِ تشیع کی سرکردہ شخصیات اور زعماء کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ اور ہر شعبہ زندگی کے سرکردہ افراد موجود تھے۔ نامور عالم دین،قائد بلتستان اور امام جمعہ و جماعت سکردو علامہ شیخ حسن جعفری دام عزہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر آہ و بکا کے دل دہلا دینے والے نالہ و فغاں کی دلدوز فضا میں اس گنج گراں مایہ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔
اِنا لِلّٰہ وَاِنّا اِلیہِ رَاجعُونَ۔
اولاد
خداوند متعال نے محسن ملت آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی طاب ثراہ کو پانچ بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا ہے۔ ان میں سے د و بیٹوں اور دو بیٹیوں کی پیدائش نجف اشرف میں ہوئی۔ توفیقِ خداوندی سے آپ کے دو فرزند علامہ شیخ محمد اسحاق نجفی اور علامہ شیخ انور علی نجفی مستند اور جید علمائے دین ہیں جبکہ دیگر تین بیٹے روح اللہ نجفی، نصر اللہ نجفی اور مصطفیٰ علی نجفی بھی خدمتِ دین و ملت کے امور میں پیش پیش ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی تمام بیٹیاں بھی عالمہ ہیں اور تحریر و خطابت کے ذریعے دین اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں۔
تربیت اولاد
بحمد اللہ آپ کے پانچوں بیٹے اور چاروں بیٹیاں اس وقت کسی نہ کسی حوالے سے دین اسلام کی نشر و اشاعت میں مصروف ہیں اور یقیناً یہ سب آپ ہی کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ آپ تربیتِ اولاد جیسے اہم فریضے سے زندگی کے کسی بھی لمحے غافل نہیں ہوئے۔ آپ نے ابتداء سے آخر عمر تک اس فریضے میں ذرہ برابر کوتاہی یا سستی نہیں برتی حتی کہ 2020ء میں جب کرونا وبا اپنے عروج پر تھی اور سماجی فاصلے ضروری قرار دیے گئے تھے اس دوران بھی آپ نے ماہ رمضان المبارک کی برکات سمیٹیں اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے گھرانے کو روزانہ کی بنیاد پر آن لائن درس اخلاق اور درس تفسیر دیتے رہے۔ ان دروس کے آخر میں سوالات کے جوابات بھی مرحمت فرماتے رہے۔