وصیت نامہ آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره (اردو ترجمہ)
اردو ترجمہ
وصیت نامہ محسن ملت7
میں نے یہ وصیت 04/11/2017 کو لکھی۔
﷽
أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده و رسوله وأشهد أن عليا وأولاده المعصومين حجج الله وأولياءه
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزو جل کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ] اللہ کے بندے اور اس کا رسول ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی Gاور ان کی معصوم اولاد خدا کی طرف سے حجت اور خدا کے اولیاء ہیں۔
اور میں تمام انبیاء و مرسلین پر ایمان رکھتا ہوں اور یہ ایمان رکھتا ہوں کہ محمد ] خاتم النبیین اور سید المرسلین ہیں۔ میں یہ ایمان رکھتا ہوں کہ امیر المؤمنین G، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، محمد بن علی، جعفر بن محمد، موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ ، محمد بن علی، علی بن محمد، حسن بن علی اور حجت ابن الحسن D میرے امام اور شفیع ہیں۔ میں ان سے محبت رکھتا ہوں اور ان کے دشمنوں سے اظہار بیزاری کرتا ہوں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ موت برحق ہے، قبر میں نکیر و منکر کا سوال کرنا برحق ہے، حشر و نشر برحق ہے، میزان برحق ہے، نامہ اعمال کا ہاتھ میں دیا جانا برحق ہے، جنت و جہنم برحق ہے۔
اما بعد۔۔ اے میری اولاد! میں تمہیں وہی وصیت کرتا ہوں جو ائمہ D نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ تقویٰ الہی اختیار کرو۔ اپنے تمام معاملات میں خدا پر توکل کرو کیوں کہ تقویٰ کے بغیر ہر عمل رائیگاں ہےاور خدا پر توکل کے بغیر ہر قدم ناکامی کی جانب ہی بڑھتا ہے۔
جس طرح حدیث میں آیا ہے :العزّ والغناء يجولان فاذا ظفرا بالتوكل اوطنا (عزت اور دولتمندی گردش میں رہتی ہیں جہاں انہیں توکل میسر آئے وہیں اپنا مسکن بنا لیتی ہے)۔ پس عزت و دولتمندی کا مسکن خدا کی ذات پر توکل کرنا ہے۔
اسی طرح اے میری اولاد! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ لوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اس سے اپنے آپ کو بالاتر رکھو اور مخلوق میں سے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ نیز لوگوں کے ساتھ کبھی اپنی امیدیں وابستہ نہ رکھو کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ «لو علم الناس ما في السؤال لم يسئل احدٌ احداً» (اگر لوگوں کو ہاتھ پھیلانے میں موجود قباحت کا پتہ چلے تو کوئی کسی سے کچھ نہ مانگے۔) زمین و آسمان کے تمام خزانوں کی کنجیاں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اور ہر چیز کا اختیار اسی کے پاس ہے۔ پس تمہاری امیدیں خدا ہی سے وابستہ ہونی چاہئے۔
میں تم سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اپنے اعمال صرف اور صرف خدا کی خوشنودی کے لئے انجام دیں کیونکہ جو خدا کے لئے ہو اس میں برکت ہوتی ہے اور جو شخص خدا کے لئے ہو خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔
میں تمہیں نمازکو اپنے وقت پر قائم کرنے، دین میں تفقہ کرنے، صلہ رحمی کرنے، قرآن مجید میں تدبر کرنے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔
اسی طرح میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ میرے بیٹے محمد اسحاق نجفی اور انور علی نجفی دونوں کو ان کے علمی و دینی مقام کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر دیکھیں کیونکہ وہ دونوں تم سے عمر اور علم میں بڑے ہیں۔ میں وصیت کرتا ہوں کہ آپس میں اختلاف و تنازعہ کرنے سے پرہیز کریں کیونکہ اختلاف و تنازعہ رائے کو نابود کر دیتے ہیں۔
میں وصیت کرتا ہوں کہ بلاؤں کو دعا کے ذریعے دور کرتے رہنا، ہمیشہ دامن دعا کو پکڑے رکھنا کیونکہ دعا عبادت کی جان اور نجات و کامیابی کی چابی ہے۔ نیز انسان جو کچھ دعا کے ذریعے حاصل کرتا ہے وہ کسی اور چیز کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتا۔ دعا خداوند متعال کے خزانوں تک پہنچنے کا بہترین دروازہ ہے۔
اے میری اولاد! یہ جان لو کہ تم میرے لئے بہترین اولاد ہو۔ میں دنیا میں تم پر فخر کرتا تھا اور آخرت میں تم میرے لئے باعث نفع ہوں گے۔ میرے خیال میں کسی بھی باپ کی تم سے زیادہ قابل عزت و تکریم اولاد نہیں ہیں۔ میں تم سب کو نیک عمل اور خدمت کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ کوشش اور عمل ہی آپ کو ترقی اور کامیابی تک لے جا سکتے ہیں۔
میری وصیت ہے کہ عمل کے لئے کبھی وسائل کا انتظار نہ کرنا کیونکہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ وسائل صرف عمل اور کوشش کے نتیجے میں آتے ہیں۔ وَالّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنّهُمْ سُبُلَنَا (اور جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے۔) پس ہدایت اور راستوں کا کھلنا کوشش اور عمل کے بعد ہی ہے۔
میں وصیت کرتا ہوں کہ فقیر اور نادار لوگوں کی مدد کرتے رہنا، تمہاری طرف رجوع کرنے والوں کی مشکلات کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا، کیونکہ اسی میں خدا کی خوشنودی ہے، اور خدا کے قریب ہونے کا سب سے اچھاراستہ ناداروں کی مدد کرنا ہے، دنیا و آخرت میں اس کے بہترین آثار و نتائج ہیں۔
میں وصیت کرتا ہوں کہ مجھے اپنی دعاؤں اور مختلف مناسبتوں میں فراموش نہ کرنا ،جس طرح میں نے اپنے والدین کو کبھی فراموش نہیں کیا ،یہاں تک کہ میں نے اپنے تمام مستحب اعمال کا ثواب اپنے والدین کو ہدیہ کر رکھا ہے۔
چونکہ انسان اپنی طبیعت کے لحاظ سے بقا ءپسند ہوتا ہے، اس لئے میں بھی بقاء کو پسند کرتا تھا لیکن نہ اس زندگی کے لئے، بلکہ میں اس دنیا میں رہنا چاہتا تھا تاکہ تفسیر قرآن کو مکمل کر سکوں، پس میں اس تفسیر کے مکمل ہونے تک زندگی کا خواہاں تھا، کیونکہ قرآن کی تفسیر دراصل زندگی ہے، پس میری زندگی بھی یہی تفسیر قرآن ہے۔ اسی طرح یہی تفسیر میری تنگدستی اور بے چارگی کے وقت کے لئے ذخیرہ بھی ہے۔ اور اب الحمد للہ میں تفسیر کا کام مکمل ہونے تک زندگی پا چکا ہوں اور دس جلدوں پر مشتمل تفسیر قرآن محرم الحرام 1436ھ کو چھپ کر منظر عام پر آچکی ہے۔
دینی مدارس کے ذمہ داران کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ تقویٰ الہی کو اپنا شعار بنائیں اور اپنے عمل میں اخلاص کو شیوہ بنائیں، نیز نسلوں کی تربیت و تعلیم، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کسی قسم کی سستی و کاہلی کا مظاہرہ نہ کریں اور خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈریں۔
دینی علوم کے طلاب کے لئے وصیت کرتا ہوں کہ دینی مدارس کی بھاگ دوڑ کو اچھی طرح اپنے ہاتھوں میں لیں، اور ملک میں علمی و تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کریں۔ اور یہ جان لیں کہ مکمل کامیابی مختلف قسم کے حیلے بہانوں سے کام لینے کی بجائے تقویٰ الہی اختیار کرنے میں ہے۔
اے میرے (روحانی)بیٹو! میری تمام امیدیں تم لوگوں سے وابستہ ہیں اور میں اللہ عزوجل سے تمہارے لئے توفیق و کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔