جامعہ قرآن و عترتD، قلعہ احمدآباد، نارووال
جامعہ قرآن و عترتD، قلعہ احمد آباد، نارووال کی تاسیس 1984 میں ہوئی، تاہم تعلیم و تعلم کا باقاعدہ آغاز 1990ء میں ہوا۔ اس مدرسے کا قیام اہل علاقہ کے لیے ایک بڑی ضرورت تھی، جسے محسن ملت، شیخ محسن علی نجفی7 نے بڑی محنت سے حقیقت کا روپ دیا۔ اس کا مقصد دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ قرآن اور اہل بیتD کی تعلیمات کو فروغ دینا ہے۔
جامعہ کی بنیاد سید علی الموسوی8 اور سید علی الحسینی8نے رکھی، جو نہ صرف دینی علم کے قدردان تھے، بلکہ ان کی خواہش تھی کہ اس ادارے سے دنیا بھر میں اہل بیتD کی تعلیمات کا پرچار ہو۔ سید علی الحسینی8 نے جامعہ ہذا کے پہلے مدیر کی حیثیت سے اس کی بنیاد مضبوط کی۔ بعد میں ان کے فرزند، سید ناصر حسین الحسینی8نے ادارے کی قیادت سنبھالی، اور 2020 محسن ملت7 مفسر قرآن علامہ محسن علی نجفی نے اس ادارے کی سرپرستی کا بیڑا اُٹھایا اور مولانا توصیف حسین کمیل کو جامعہ ہذا کا مدیر منتخب کیا جو تاحال مدیریت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
تعلیمی نظام اور نصاب
جامعہ قرآن وعترتD تعلیم کا نظام ایک منظم اور جامع نظام ہے جس میں دینی اور عصری تعلیمات کا حسین امتزاج ہے۔ مدرسے میں مختلف شعبوں میں تعلیم دی جاتی ہے، جن میں حفظ القرآن، حوزوی تعلیمات اور مروجہ تعلیم شامل ہیں۔ اس جامعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں نہ صرف دینی علوم پر زور دیا جاتا ہے، بلکہ طلباء کو عصری ضروریات کے مطابق بھی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ وہ معاشرتی چیلنجز کا سامنا کر سکیں۔
مدرسے کا نصاب دو اہم شعبوں میں تقسیم ہے۔ ایک شعبہ حفظ القرآن ہے جس میں تین سالہ پروگرام کے تحت حفظ القرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ دوسرا شعبہ علوم حوزویہ ہے۔ یہ چار سالہ کورس ہے جس میں طلباء کو قرآن، حدیث، عقائد، سیرت، منطق، اور فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔مدرسہ ہذا میں دو شعبے قائم ہیں، اور دونوں کے داخلے کی شرائط مختلف ہیں۔ شعبہ حفظ القرآن میں داخلے کے لیے ضروری ہے کہ طالب علم پانچویں جماعت پاس ہو اور مطلوبہ ٹیسٹ و انٹرویو میں کامیابی حاصل کرے۔ دوسری جانب، شعبہ حوزہ میں داخلے کے لیے طالب علم کا مڈل جماعت پاس ہونا اور مطلوبہ ٹیسٹ و انٹرویو میں کامیاب ہونا لازمی ہے۔
فارغ التحصیل طلباء اور ان کی خدمات
اس جامعہ سے سینکڑوں کی تعداد میں طلباء فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ جن میں بہت سے علماء حوزہ علمیہ نجف اشرف، قم مقدس، اور مشہد مقدس میں مشغول تحصیل ہیں۔ بعض طلباء پاکستان کے مختلف مدارس میں تدریس کے فرائض اور مساجد میں امام جماعت کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی خدمات نے اس جامعہ کی تعلیم کی افادیت کو نمایاں کیا ہے۔ فارغ التحصیل طلباء کی یہ کامیابیاں اس بات کی غماز ہیں کہ جامعہ قرآن وعترتD نے انہیں صرف علمی میدان میں کامیاب بنانے پر توجہ نہیں دی، بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کی ہے تاکہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔
مدرسہ کی خدمات اور معاشرتی اثرات
محسن ملت7 کی سرپرستی میں اس ادارے نے دینی اور دنیاوی خدمات کا ایک بہترین توازن قائم کیا، جس کا اثر آج بھی نمایاں ہے۔
جامعہ نے اپنے قیام کے بعد سے ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی ذمہ داریوں کو بھی اہمیت دی۔ مدرسہ کی زیر نگرانی کئی دینیات سینٹرز فعال ہیں اور طلباء کرام علاقے کی مساجد میں حسب ضرورت بحیثیت پیش نماز اپنی خدمات بھی پیش کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ، جامعہ کے زیر اہتمام ماہانہ اجتماعات اور فقہی احکام کی آگاہی کے لیے آن لائن سہولت فراہم کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو اسلامی مسائل میں رہنمائی مل سکے۔
محسن ملت کی سرپرستی اور اثرات
محسن ملت، مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی7 کی سرپرستی نے جامعہ قرآن وعترتD کو ایک منفرد مقام دیا۔ ان کی رہنمائی اور توجہ نے اس ادارے کو تعلیمی میدان میں نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ محسن ملت کی سرپرستی میں جامعہ نے نہ صرف اپنے نصاب میں بہتری لائی بلکہ طلباء کی اخلاقی اور روحانی تربیت پر بھی بھرپور توجہ دی۔ آپ ہمیشہ اس بات کی تاکید کرتے تھے کہ ایک عالم دین کا علم اتنا ہی موثر ہوتا ہے جتنا کہ اس کی اخلاقی اقدار اور روحانی ترقی۔ آپ طلباء کو ہمیشہ یہ نصیحت فرماتے تھے کہ اللہ کی رضا کے لیے علم حاصل کرو اور اسے لوگوں تک پہنچاؤ۔
محسن ملت7 نے طلباء کی عزت نفس اور وقار کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ آپ کے نزدیک ایک عالم دین کا اولین مقصد اپنے علم کو فروغ دینا اور اپنی عزت نفس کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ آپ کی سرپرستی میں طلباء کو بہترین تعلیمی اور اخلاقی ماحول فراہم کیا گیا، تاکہ وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور آخرت میں بھی۔